جِن لوگوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے سندھ کو بہتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ شیر دریا کی ہیبت اور حُسن کے کیا معنی ہیں۔ چوڑا پاٹ، خاموش، سنجیدہ اور چوڑی پیشانی والا دریا شہر کے مشرق پہلو سے یوں چپ چاپ گزرتا ہے جیسے کوئی بزرگ فرشتہ سفید پر پھیلائے نیچی پرواز کر رہا ہو۔ کچی پائند خان دریائے سندھ کے کنارے آباد ہمارا گاؤں تھا، گھر سے دریا کا فاصلہ پانچ منٹ کی پیدل مسافت۔ ان دنوں گاؤں کے گھر ابھی کُشادہ تھے اور ہر آنگن میں درخت بازو پھیلائے کھڑے تھے۔ شام کو شہر کا شہر دریا کنارے اُمڈ آتا۔ ہم چچا زاد اور گاؤں کے دوست آدھی رات تک وہیں بسیرا رکھتے۔ پورے چاند کی راتوں میں دریا تختِ آئینہ ہو جاتا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مہر تھا نہ قہر اور نہ کوئی سچا شعر، بے پروائی کے دن تھے۔ وقت کی لگام تھامنے کا ایک طریقہ میں نے نکالا کہ ایک ایف سی میں اپنے قیام کو طویل کر دیا۔ گاؤں کی دوسری اہم سرگرمی تھی چاچے منور شاہ (میرے تایا) دی جھا، دو کنال کے صحن میں گلاب اور رابیل (موتیے) کی خوبصورت جھاڑیاں قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑی تھیں۔ گرمیوں کی راتوں میں جب رابیل کی جھاڑیاں پھولوں سے بھر جاتیں تو ایسی خو