سوشل میڈیا کی برکات
آپ نے چند سال پہلے تک اکثر علماءاکرام کو سنا ہو گا جو تصویر بنانے، ٹیلی ویژن رکھنے یہاں تک کہ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے بھی مخالف تھے۔
اور ان سب چیزوں کی اجازت بھی اپنے مفادات دیکھ کر دے دی گئی، کہ یہاں سے فیم بھی ملتا ہے اور کمائی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ آج علماءاکرام نہ صرف ٹیوی پروگرامات میں بھاری فیس کے عوض بیٹھتے ہیں بلکہ ان کے اپنے چینلز بھی ہیں۔
دور حاضر کی سائنسی ایجادات کو ایکسیپٹ کر لینا خوش آئند ہے مگر چند اک لوگ آج بھی مخالفت میں نظر آئیں گے۔
اس مخالفت کے پیچھے کی وجہ کیا ہے؟ یہ جان لینا بہت ضروری ہے۔
چند سال پہلے جنگ گروپ کے اونر میرشکیل الرحمن کو کچھ کیسز کا سامنا کرنا پڑا، عدالت میں پیشی کے بعد باہر نکل کر انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں سوشل میڈیا کو گٹر سے کمپیئر کیا۔ اپنے دور کے سب سے بڑے چینل جیو اور جنگ گروپ کے مالک کا سوشل میڈیا پر غصہ بالکل بجا تھا، چونکہ سوشل میڈیا چند گھنٹوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے پیڈ پروپیگنڈے کو ایکسپوز کر دیتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ہر پروپیگنڈے کا جواب پاکستانی عوام چند منٹوں یا گھنٹوں میں دے دیتے ہیں، جس کا واضح ثبوت رجیم چینج کے بعد عمران خان کو دیوار سے لگانے کا ناکام منصوبہ ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے قوم نے نست و نابود کر کے رکھ دیا۔
بالفرض آج سوشل میڈیا نہ ہوتا تو عمران خان کا انجام بھی وہی ہوتا جو قائداعظم کی بیماری سے لے کر لیاقت علی خان کی شہادت سے ہوتے ہوئے مادرملت فاطمہ جناح کی توہین تضحیک سے بڑھ کر سقوط ڈھاکہ سے ہوتے ہوئے این آر او ون اورNROٹو تک ہوا۔
اگر مادر ملت فاطمہ جناح کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا تو حقائق عوام تک پہنچتے اور قوم مادر ملت کے ساتھ کھڑی ہو جاتی، مگر اس وقت کے دستیاب ذرائع آزاد نہیں تھے، اگر کوئی ریڈیو اسٹیشن عوام کو حقائق بتانے کی کوشش کرتا تو غدار وطن ڈکلیئرڈ کر کے نشان عبرت بنا دیا جاتا۔
مگر آج الحمداللہ سوشل میڈیا کی برکات کی بدولت طاقتور حلقوں کی تمام پلاننگز لوگ ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ آج جو لوگ عمران خان کے لیے سوشل میڈیا کے محاذ پر سرگرم ہیں، ان میں امیر غریب سب شامل ہیں، کوئی آئی پیڈ، مہنگے لپ ٹاپ سے مہنگا ترین نیٹ استعمال کر کے اس محاذ پر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے تو کوئی ماہانہ، ویکلی، ڈیلی پیکجز کی مدد سے، کسی کے پاس مہنگا ترین فون ہے تو کسی کے پاس ٹوٹی سکرین والا فون جس کی بیٹری کے پیچھے نسوار والی ربڑ لپیٹی ہوئی ہے۔
کوئی سرکاری ملازم ہے یا بزنس مین یا پھر مزدور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر وہ عمران خان کی جنگ لڑنے کا حق ادا کر رہا ہے۔
19ویں صدی میں قوم کو گمراہ کرنے والی طاقتوں نے سمجھا تھا، شاید تحریک انصاف کے چند سو یا چند ہزار پیڈ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہونگے، مگر یہاں تو کروڑوں لوگ جن میں پڑھنے والے بچوں تک جو جیب خرچی سے نیٹ پیکج کے پیسے جوڑ کر عمران خان کے لیے لڑ رہے ہیں شامل ہیں۔ یہاں ان آوازوں کو جتنا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ مزید ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
آج سوشل میڈیا کی برکات سے عوام حقائق کو جانچ چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قوم کو گمراہ رکھنے والے طاقتور حلقے ہوں یا میڈیا کے بکاؤ مالکان و صحافی اور سوشل میڈیا کے خلاف ہیں، چونکہ سوشل میڈیا انکے مکروہ چہروں کو بےنقاب کرتا ہے۔
اسی طرح سے مذہبی طبقات جو ماضی میں اپنے بابوں کی جھوٹی کہانیاں سنا کر قوم کو گمراہ کرتے تھے، سوشل میڈیا نے ان کی کہانیوں کی حقیقت سے بھی عوام کو بخوبی واقف کر دیا ہے، آج ہر شخص کے پاس سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہے جس کی مدد سےوہ اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔
آج سیاستدان ہوں،جرنیل، جج ہوں یا مولوی سوشل میڈیا پر وہ اپنی مقبولیت اور عوامی محبت کا جانچ سکتے ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔
اسی سوشل میڈیا کی بدولت قوم نے جہالت کو رد کر کے شعور کی سیڑھی پر قدم رکھا اور کل ریاست کے تمام ادارے تمام مشیزی کپتان کو ذلیل کر کے ٹھکانے لگانا چاہتی تھی مگر چشم فلک نے دیکھا، سوشل میڈیا کے سپاہی میدان عمل میں اترے اور سب کو حیران کر دیا۔
کل رات جو بھی ہوا وہ صرف ٹریلر تھا، یہ ردعمل صرف لاہور کے ایک مخصوص علاقے نے دیا ہے، اگر تم نے غلطیوں سے نہ سیکھا تو پورے پاکستان کے عوام اپنے پاور کی جھلک تمہیں دکھائیں گے۔ اب وہ وقت گیا جب قوم کو پردے کے پیچھے کچھ نظر نہیں آیا کرتا تھا۔ اب قوم نے شعورکی عینک لگا لی ہے، اب قوم سے ٹکراؤ ہر گز کسی کے مفاد میں نہ ہو گا۔
تھینکس فار سوشل میڈیا۔
Comments
Post a Comment