سوشل میڈیا کی برکات آپ نے چند سال پہلے تک اکثر علماءاکرام کو سنا ہو گا جو تصویر بنانے، ٹیلی ویژن رکھنے یہاں تک کہ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے بھی مخالف تھے۔ اور ان سب چیزوں کی اجازت بھی اپنے مفادات دیکھ کر دے دی گئی، کہ یہاں سے فیم بھی ملتا ہے اور کمائی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ آج علماءاکرام نہ صرف ٹیوی پروگرامات میں بھاری فیس کے عوض بیٹھتے ہیں بلکہ ان کے اپنے چینلز بھی ہیں۔ دور حاضر کی سائنسی ایجادات کو ایکسیپٹ کر لینا خوش آئند ہے مگر چند اک لوگ آج بھی مخالفت میں نظر آئیں گے۔ اس مخالفت کے پیچھے کی وجہ کیا ہے؟ یہ جان لینا بہت ضروری ہے۔ چند سال پہلے جنگ گروپ کے اونر میرشکیل الرحمن کو کچھ کیسز کا سامنا کرنا پڑا، عدالت میں پیشی کے بعد باہر نکل کر انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں سوشل میڈیا کو گٹر سے کمپیئر کیا۔ اپنے دور کے سب سے بڑے چینل جیو اور جنگ گروپ کے مالک کا سوشل میڈیا پر غصہ بالکل بجا تھا، چونکہ سوشل میڈیا چند گھنٹوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے پیڈ پروپیگنڈے کو ایکسپوز کر دیتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہر پروپیگنڈے کا جواب پاکستانی عوام چند منٹوں یا گھنٹوں میں دے دیتے ہیں، جس کا واضح ثبو
بلاول کو وزیراعظم بنانے کا اٹل فیصلہ ہو چکا ہے عمران خان کے دور حکومت میں ہی بلاول کے امریکی دوروں میں امریکہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ بوس جیسا تم چاہو گے ویسا ہی ہم کریں گے، اور ہمیشہ سے سیاستدان امریکہ کو یقین دلاتے آئے ہیں، یہاں تک کے لاکھوں علماء کے استاد مولانا فضل الرحمن بھی امریکہ کو تابعداری کا یقین دلا چکے ہیں جو وکی لیکس کے ذریعے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ زرداری کے پالتو کتے حقانی جس کے نام کے ساتھ حسین لکھتے ہوئے بھی گناہ تصور ہوتا ہے کے ذریعے عمران خان کے خلاف لابنگ کی گئی اور امریکیوں کو قائل کیا گیا کہ ہم اور پاکستان کے طاقتور حلقے آپکے وفادار ہیں البتہ عمران خان اینٹی امریکہ ہے لہذا اسے ہٹانا ضروری ہے۔ اسی محنت کے نتیجے میں "ڈاونلڈلو"نے پاکستان کے سیاستدانوں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر کے منصوبے میں اہم کردار ادا کیا، شریف خاندان پر کیسز کی وجہ سے انہیں بلیک میل کیا گیا کہ ہماری سب مان لو تبھی تمہیں معاف کیا جا سکتا ہے، مخلوط حکومت کا وزیراعظم بن کر سب کے گناہوں کی ذمہ داری اپنے سر پر لینا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا، اور یہ بات شہبازشریف بھی جانتے