7اکتوبر2018بروز اتوار ﴿ازقلم محمداشرف﴾
آج کا میرا موضوع ہے دعوت فکر
یہ دعوت فکر پورے پاکستان کے لیے نہیں ضلع، تحصیل، یا یونین کونسل تک بھی نہیں بلکہ میں اپنے علاقے کھولیاں درویش آباد سے مخاطب ہوں۔ موجودہ دور میں ہم نے خود کو ایک بہت بڑے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ عذاب کیا ہے؟ (رسومات)
ایک بچے کی پیدائش سے لے کر اموات اور کفن دفن تک ہم نے انتہائ خطرناک رسومات کو اپنایا ہوا ہے جو ہماری زندگیوں کے لیے جان لیوا بنے ہوۓ ہیں۔ میں تمام تر رسومات کو بالاطاق رکھ کر آج صرف شادی کی رسومات پر لکھوں گا۔ کھولیاں درویش آباد کے علماءاکرام سے میں ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں آگے بڑھیے اور قرآن و سنت کی روشنی میں قوم کی راہنمائ کیجیئے۔
بحثیت مسلمان میرا کامل ایماں و یقین ہے کہ قرآن مجید دستور حیات ہے۔ ایک مکمل رہبر و راہنما ہے۔
حضوراقدسﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے⬇
(تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھاۓ)
ہمارے علماء اکرام پاکستان سمیت دنیا بھر میں قرآن حفظ و ناظرہ ترجمہ تفسیر سیکھا رہے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ایک بار قرآن و سنت کی روشنی میں ہمارے ہاں خودساختہ رسومات کی پیداوار پر بھی نظر دھرائیے اور اس کے لیے عمل اقدام اٹھائیے اگر علماء اکرام اس معاملے پر اپنا حق ادا کریں جو ان کا فرض بھی بنتا ہے تو میں پورے وسوخ سے کہہ سکتا ہوں یہ رسومات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائیں گے۔
وہ کون سی رسومات ہیں جنہوں نے ہمارا جینا دشوار کر رکھا ہے؟
جہیز کی لعنت
ہمارے معاشرے میں جیز کو وقت کے حساب سے فرض عین سمجھا جانے لگا ہے۔ اور ایک بیٹی کی شادی پر کم از کم ناکارہ کوالٹی کی چیزیں بھی خریدی جائیں تو ایک لاکھ تک اخراجات آ جاتے ہیں۔
اور جس غریب چار پانچ بیٹیاں ہوں بتاؤ وہ کیسے ان کا جہیز پورا کرے گا۔
دوسری چیز
جب لڑکے کے لیے لڑکی کے پیرنٹس کی طرف سے ہاں کی جاتی ہے تو اس قدر بھاری شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ وہ دوسری بار بھی پیدا ہو کر آۓ تو وہ شرائط پوری کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔
آج کل ایک شخص جس کی ذاتی جائیداد دس پندرہ مرلے ہے اور چھ سات بچے بھی ہیں جب اس سے ایک کنال یا دس مرلہ پانچ مرلہ زمین پہلے لڑکی کے نام پر کروانے کی ڈیمانڈ کی جاۓ گی تو وہ کیسے کرے گا؟ اگر کر بھی دے تو دوسرے بچوں کی باری انہیں کیا دے گا؟ جائیداد میں باقی بچوں اور بچیوں کا حصہ انہیں کیسے دے گا؟
اور شادی پر جو سوٹ کیس دیے جاتے ہیں ان کو چھوڑ دیں ہم اگر صرف بات کریں شادی پر بننے والے کھانوں کے اخراجات کی تو نارمل سا نظام بھی ہو تو ساٹھ ستر ہزار لگ جاتے ہیں۔
اب جن کے پاس اللہ کا دیا ہوا پیسہ وافر ہے انہیں تو کوئ پرواہ نہیں مگر جو غریب لوگ ہیں وہ قرض لے لے کر شادیاں کرواتے ہیں۔ امیر باپ کو خوشی ہوتی ہے کہ آج بیٹا ازدواجی زندگی میں داخل ہوا اور غریب باپ شادی کے روز پریشان ہوتا ہے کہ آج مزید قرض دار ہو گیا، اب یہ قرضہ کیسے اور کہاں سے اتاروں گا۔
مگر اس میں انتہائ دکھ اور افسوس کی یہ بات ہے کہ امیر لوگ جب شادیوں کے بھاؤ بڑھاتے ہیں تو انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ معاشرے کی رسم بنتی جا رہی ہے جو غریب لوگوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
اور بے چارہ غریب عقل کا اندھا دماغ اور شعور سے خالی قرض لے لے کر شادیاں کروا رہا ہے، وجہ صرف یہ کہ سماج میں میری ناک نہ کٹ جاۓ۔ کوئ یہ نہ کہے کہ اس نے بیٹے بیٹی کی شادی پر خرچ نہیں کیا۔
یقین جانو آپ ایک سو قسم کے اعلی کھانے بنواؤ دعوت عام کرو لوگ کھا پی کر ڈکار مار کر جب جائیں گے تو راستے میں اس کھانے سے نقص نکالتے جائیں گے۔ اس سے بہتر ہے جو اخراجات تم خودساختہ رسومات پر کرتے ہو اگے چھ مہینے خود کھاؤ کم از کم کوئ یہ تو نہیں کہے گا کھانا اچھا نہیں بنا۔
ایک اور قسم کے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں جو شادی کے روز لڑکے والوں کی بڑی تذلیل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اس سے گھٹیا پن اور کوئ ہو نہیں سکتا رشتہ بنانے سے پہلے داماد جی کے دل میں تمھارے لیے نفرت پیدا ہو جاتی ہے جو بعض اوقات تمھاری بیٹی کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔
کہیں پر رشتہ دو تو نہ ناجائز شرائط رکھو نہ ہی ان کی تذلیل کرو جب تمھاری بیٹی ان کے گھر رہ گی تو اس کی بھی عزت ہو گی اور تم بھی سر اٹھا کر چلو گے۔
اور اگلی بات پلیز ذرا دھیان سے
جس طرح ہمارے معاشرے میں شادی کو مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے۔ عنقریب کورٹ میرج کے واقعات میں بڑی حد تک اضافہ ہو گا۔اور پھر بھی خودساختہ رسمومات کا خاتمہ نہ ہوا تو کورٹ میرج کےواقعات90فیصد سے تجاوز کریں گے۔ زنا عام ہو گا۔ بچوں سے بدفعلی کے کیسز عام نظر آئینگے۔
اب فیصلہ آپ کا
خودساختہ رسومات کا خاتمہ پسند یا گھر کی بہن بچی کا کورٹ میرج کرنا پسند
خودساختہ رسومات کا خاتمہ پسند یا زنا کاری کا عام ہونا پسند
خودساختہ رسومات کا خاتمہ پسند معاشرے کی بگڑی حالت پسند
اس بات سے چاہا کر بھی کوئ اختلاف نہیں کر سکتا کہ جب شادی مہنگی ہوتی ہے تو زنا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
اور یاد رکھو: زنا کرنے والے کو اگر گناہ ہو گا تو بچ وہ بھی نہیں پاۓ گا جس نے وہ اسباب مہیا کیئے۔ یعنی جن جن لوگوں نے خودساختہ رسومات کو پروان چڑھایا۔ جو جو ناک کٹنے کے ڈر سے قرض لے لے کر رسومات کو تقویت بخشتے رہے۔ چونکہ انہی رسم و رواج سے شادی مہنگی اور مشکل ہوئ تو بڑا گنہگار کون زانی یا حالات کو شادی مشکل اور زنا آسان بنانے والا؟
کھولیاں درویش آباد کے تمام علماء حفاظ سے میری گزارش ہے کہ اس مسئلے پر فوری ایکشن لیں اور معاشرے میں رسم رواج کے خلاف جہاد شروع کریں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ علماء اکرام اپنا فرض نبھائیں گے اور علماء اکرام کی بات یقیناً مانی بھی جاۓ گی۔
میں آج یہ واضح الفاظ میں علماء اکرام سے اپیل کر رہا ہوں کہ اپنی ذمہ داری کو نبھائیں اور تمام نوجوانوں سے میری گزارش ہے۔ تمام علماء کے واٹس ایپ نمبر اور مسینجر پر اس پیغام کو بھیجیں اور اگر پھر علماء اکرام اگر سنجیدہ دکھائ نہیں دیتے تو پھر اللہ کی عدالت میں جواب دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔
ہم نے تمام علماء اکرام کے نام لے لے کر اللہ سے شکایت کرنی ہے کہ ان کے پاس تیرا دیا ہوا قرآن تھا حضورپاکﷺ کی دی ہوئ تعلیمات تھیں یہ لوگ باہر شہروں اور دوسرے ملکوں میں جا کر لوگوں کو دین سیکھایا کرتے تھے۔ مگر جب ہمارے معاشرے میں ہمیں ان کی ضرورت پڑی ہم نے ہاتھ جوڑ کر ان سے معاشرے کی اصلاح کی درخواست کی مگر ان لوگوں نے ہماری بات سنی ان سنی کر دی۔ اگر یہ چاہتے تو معاشرے میں سدھار لا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا کیا ہی نہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم بہت گنہگار ہیں مگر یا اللہ تیرے یہ بندے یہ علماء جن کے اختیار میں تھا کہ سماج سے ان رسومات کا خاتمہ کریں جن سے برائ کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے کیوں نہ ایسا کیا؟
ذرا دلوں پہ ہاتھ رکھ کر سوچو اگر اللہ نے ہماری درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی جو یقیناً کرے گا انشاءاللہ تو بتاؤ اللہ کو کیا جواب دو گے۔
کھولیاں درویش آباد کے تمام علماء سے میری گزارش ہے کہ سوچ لیں بات یہیں ختم کرنا چاہتے ہیں یا اللہ کی عدالت میں جانے کا پروگرام ہے۔اگر یہاں ہمارے آسان مطالبے مان لو گے تو ہمارا بھی بھلا تمھارا بھی بھلا ہم گناہوں سے بچ جائیں گے اور آپ وہاں کے حساب کتاب سے ہمارا کام تھا آپ کو خبردار کرنا آگے آپ کی مرضی۔
آخر میں تمام نوجوانوں سے اور ان لوگوں سے جو میری بات سے ایگری ہیں اس تحریر کو کاپی کر کے اپنی وال پر چپکائیں اور علماء اکرام کو سینڈ بھی کریں۔
یہ چند درجن جوانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ آنے والی نسل کی دنیا و آخرت کا مسئلہ ہے۔
والسلام۔
Comments
Post a Comment